سورة ھود - آیت 110

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی، پھر اس میں اختلاف کیا گیا اور تیرے پروردگار نے پہلے سے ایک بات نہ ٹھہرا دی ہوتی (یعنی یہ کہ دنیا میں ہر انسان کو اس کی مرضی کے مطابق مہلت عمل ملتی ہے) تو البتہ ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا، اور ان لوگوں کو اس کی نسبت شبہ ہے کہ حیرانی میں پڑے ہیں۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3۔ یعنی ان کی بت پرستی کی بنیاد سوائے باپ دادا کی اندھی تقلید کے اور کچھ نہیں ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 4۔ اہل سعادت و شقاوت کا حال بیان کرنے کے بعد آکر میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی ہے کہ اگر آج یہ لوگ آپو پر نازل شدہ کتاب قرآن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں تو آپﷺ بدل اور کبیدہ خاطر نہ ہوں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے توراۃ کے ساتھ بھی لوگ یہی معاملہ کرچکے ہیں۔ (شوکانی)۔ ف 5۔ یا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میرے رحمت میرے غصے پر غالب ہے تو اب تک ان کو تباہ و برباد کردیا جاتا۔ (شوکانی) شاہ صاحب لکھتے ہیں“ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ دنیا میں سچ اور جھوٹ صاف نہ ہو۔ (از موضح)۔ ف 6۔ یعنی سخت خلجان میں پڑے ہوئے ہیں۔