سورة ھود - آیت 108

وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جن لوگوں نے سعادت پائی تو وہ بہشت میں ہوں گے اور اسی میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں، (اس کے خلاف کچھ ہونے والا نہیں) مگر ہاں اس صورت میں کہ تیرا پروردگار چاہے یہ (سعیدوں کے لیے) بخشش ہے ہمیشہ جاری رہنے والی۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1۔ دونوں آیتوں میں استثنا کا تعلق گہگار اہل توحید سے ہے۔ اوپر کی آیت میں مطلب یہ ہوگا کہ موحد مومن گنہگار جب اپنی سزا بھگت لیں گے تو انہیں دوزخ سے نکال لیا جائے گا جیسا کہ بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔ جمہور صحابہ (رض) و تابعین (رح) سے اس کی یہی تفسیر منقول ہے۔ گو بعض نے اس سے دوزخ کے بالآخر فنا ہوجانے پر استدلال کیا ہے اور اس سلسلہ میں ایک حدیث ضعیف اور کچھ غریب اقوال بھی نقل کئے ہیں مگر یہ مطلب قرآن کی دوسری آیات کے خلاف ہے جن میں جہنمیوں کے متعلق ” خالدین“ اور ” ابدا“ کے الفاظ مذکور ہیں۔ دوسری آیت میں اہل جنت کے متعلق بھی ” الاماشاء ربک“ کا تعلق اصحاب معاصی کے ساتھ ہے۔ یعنی جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے تاہم کچھ لوگ مشیٔت الٰہی کے تحت دوزخ سے نکال کر جنت میں لائے جائیں گے۔ گویا وہ ہمیشہ جنتیں نہ رہے مگر جنت میں داخل ہونے کے بعد چونکہ کوئی بھی اسے نہیں نکلے گا اس لئے آخر میں ” عطاء غیر مجذوذ“ فرمادیا اور دوزخ سے کچھ لوگ نکال کر جنت میں لائے جائیں گے اس لئے اس کے آخر میں ” ان رب فعال لما یرید“ فرمایا۔ (کذافی الروح)۔ حضرت شاہ صاحب (رح) اپنے فوائد میں لکھتے ہیں : اس کے یعنی آیت (مادامت السموات والارض الا ماشاء ربک) کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ رہیں گے آگے میں جتنی دیر رہ چکے ہیں آسمان و زمین دنیا میں مگر جتنا اور چاہے تیرا رب، وہ اسی کو معلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ رہیں گے آگ میں جب تک رہے آسمان و زمین اس جہاں کا یعنی ہمیشہ مگر جو چاہے رب تو موقوف کردے لیکن چاہ چکا کہ موقوف ن ہو۔ اس کہنے میں فرق نکلا اللہ کے ہمیشہ رہنے میں اور بندے کے کہ بندہ گوہ ہمیشہ ہے ساتھ یہ بات لگی ہے کہ اللہ چاہے تو فنا کردے۔ (موضح 9۔