قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوا إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ
(تب مہمانوں نے) کہا اے لوط ! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے آئے ہیں (گھبرانے کی کوئی بات نہیں) یہ لوگ کبھی تجھ پر قابو نہ پاسکیں گے، تو یوں کر کہ جب رات کا ایک حصہ گزر جائے تو اپنے گھر کے آدمیوں کو ساتھ لے کر نکل چل اور تم میں سے کوئی ادھر ادھر نہ دیکھے (یعنی اور کسی بات کی فکر نہ کرے) مگر ہاں تیری بیوی (ساتھ دینے والی نہیں، وہ پیچھے رہ جائے گی) جو کچھ ان لوگوں پر گزرنا ہے وہ اس پر بھی گزرے گا، ان لوگوں کے لیے عذاب کا مقررہ وقت صبح کا ہے اور صبح کے آنے میں کچھ دیر نہیں۔
ف 5۔ یعنی جب فرشتوں نے دیکھا کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) بالکل عاجز آگئے ہیں اور اپنی قوم کے بدکاروں کو روك نہ سکنے کی وجه سے سخت رنجیدہ ہیں تو انہوں نے ظاہر کردیا کہ ہم فرشتے ہیں۔ ف 6۔ پیچھے سے عذاب کی بنا پر شور اور دھماکوں کی آواز بھی آئے تب بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھو بلکہ اس علاقے سے جلد از جلد نکل جانے کی فکر کرو۔ ف 7۔ اسے ساتھ نہ لے جائو کیونکہ وہ کافر ہے یا وہ پیچھے مڑ کر دیکھے گی۔ (وحیدی)۔ ف 8۔ علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ جب حضرت لوط ( علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے چل دئیے تو ان کی بیوی بھی ساتھ تھی لیکن جب عذاب نازل ہونے کی آوازیں آنے لگیں تو وہ پیچھے مڑ کر اپنی قوم کی تباہی پر افسوس کرنے لگی۔ ایک پتھر اس پر بھی آکر گرا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگئی۔ یہ مطلب اس صورت میں ہوسکتا ہے جب ” إِلَّا ٱمۡرَأَتَكَ کا استثنا“لَا يَلۡتَفِتۡ سے ہو مگر اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ ساتھ ہی نہیں گئی اور اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہوگئی۔ اس صورت میں یہ استثناء ” فَأَسۡرِ بِأَهۡلِكَ “ سے ہوگا۔ (ابن کثیر)۔ ف 9۔ ہمارے حضرت ﷺ کو مکہ فتح ہوا صبح کے وقت، شاید وہی اشارہ ہو۔ (موضح)۔