وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور (دیکھو ہر گروہ کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ (عبادت کے وقت) رخ پھیر لیتا ہے۔ (پس یہ کوئی ایس بات نہیں جسے حق و باطل کا معیار سمجھ لیا جائے۔ اصلی چیز جو مقصود ہے وہ تو نیک عملی ہے) پس نیکیوں کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرو۔ تم جہاں کہیں بھی ہو (یعنی جس جگہ اور جس سمت میں بھی خدا کی عبادت کرو) خدا تم سب کو پا لے گا۔ یقیناً اس کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں
ف 7 اب اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ کسی بھی ددر میں تعین قبلہ کے حکم کو اصول دین کو حیثیت حاصل نہیں ہوتی کہ اس میں رد وبد نہ ہو سکے دوسرے احکام کی طرح اس میں نسخ ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ صخرہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نصاری بیت المقدس کی شرقی جانب کی طرف رخ کرت ہیں طرح ان پہلی امتوں کے لیے بھی ایک سمت مقرر تھی اس اصل تحت تمہارے لیے کعبہ کو قبلہ قرار دے دیا تمہیں چاہیے کہ نیک کاموں میں سبقت کرو۔ (ابن کثیر۔ المنار) اس میں اشارہ ہے کہ نماز بھی اول وقت ادا کرنے چاہیے حدیث میں ہے خیر الاعمال الصلوہ الاول قعتھا۔ کہ سب سے بہتر عمل اول وقت پر نماز ادا کرنے ہے۔ (بخاری مسلم) فائدہ۔ حاظ ابن تیمہ نے الردعلی المنطقیین (س 29) اور حافظ ابن القیم نے بدائع الفوا ئد (ج 2 ص 168۔173) میں محققا نہ طور پر ثاتب کیا ہے کہ بیت المقدس کو قبیلہ بنانا اجتہادی امرتھا اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کو حکم نہیں دیا کہ بیت المقدس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھیں،(کتاب الایمان ص 11) ج 8 یعنی آخر تم سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور جمع ہونا ہے اور نیک کاموں کے متعلق تم سے پوچھا جائے گا۔ (قرطبی)