قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
لوگوں نے کہا اے صالح پہلے تو تو ایک ایسا آدمی تھا کہ ہم سب کی امیدیں تجھ سے وابستہ تھیں پھر کیا تو ہمیں روکتا ہے کہ ان معبودوں کی پوجا نہ کریں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں؟ (یہ کیسی بات ہے؟) ہمیں تو اس بات میں بڑا ہی شک ہے جس کی طرف تم دعوت دیتے ہو کہ ہمارے دل میں اترتی نہیں۔
ف 3۔ یعنی تمہاری عقلمندی اور ذہانت سے تو ہم بڑی بڑی امیدیں وابستہ کئے بیٹھے تھے مگر تم نے تو توحید اور آخرت کا نیا راگ الاپ کر ہماری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ف 4۔ یعنی بت پرستی اور شرک پر اصرار کی اگر کوئی دلیل تھی تو وہ صرف یہ کہ ان کے باپ دادا ان کی پوجا کرتے رہے تھے۔ ف 5۔ یہ کس قدر حماقت تھی کہ شرک پر نہ تو مطمئن تھے اور نہ ان کے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہی نہ تھی مگر پھر بھی آبائی تقلید کی وجہ سے شرک کو چھوڑ کر توحید کی راہ اختیار کرنے کو تیار نہ تھے۔