قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ
(نوح نے) عرض کیا خدایا ! میں اس بات سے تیرے حضور پناہ مانگتا ہوں کہ ایسی بات کا سوال کروں جس کی حقیقت کا مجھے علم نہیں، اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور رحم نہ فرمایا تو میں ان لوگوں میں سے ہوجاؤں گا جو تباہ حال ہوئے۔
ف 2۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) شاید پدری محبت کے تقاضے سے یہ سمجھ بیٹھے کہ بیٹا، چاہے وہ کافر ہو گھروالوں میں شامل ہے اور اس کے لئے دعا کی جاسکتی ہے لیکن جونہی اللہ تعالیٰ نے انہیں تنبیہ کی کہ ایک کافر بیٹے کو نسبی قرابت کی بنا پر اپنا اہل سمجھنا صحیح نہیں ہے تو وہ فوراً متنبہ ہوئے اور اللہ کے حضور اپنی غلطی پر معافی چاہی۔ (از وحیدی)۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت نوح ( علیہ السلام) نے توبہ کی لیکن یہ نہ کہا کہ پھر ایسا نہ کروں گا کہ اس میں دعویٰ نکلتا ہے۔ بندے کو کیا مقدور ہے؟ اسی کی پناہ مانگے کہ مجھ سے پھر نہ ہو۔ (موضح)۔