قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
(خدا نے) فرمایا اے نوح ! وہ تیرے گھر کے لوگوں میں سے نہیں، وہ تو (سرتاپا) عمل بد ہے (١) پس جس حقیقت کا تجھے علم نہیں اس بارے میں سوال نہ کر۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ناواقفوں میں سے نہ ہوجانا۔
ف 9۔ یعنی ان لوگوں میں سے نہیں ہے جنہوں نے تجھ پر ایمان لا کر تیری پروی اختیار کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجات کے لئے نسبی تعلق کافی نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل ضروری ہے۔ ف 10۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے کسی ایسی چیز کا مانگنا جائز نہیں ہے جس کے متعلق معلوم ہو کہ وہ اس کی شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ ف 1۔ یا یہ کہ تمہیں اس سے بلند دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم سے کوئی ایسا کام صادر ہو جو جائلوں کے کرنے کا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں آدمی پوچھتا وہی ہے جو معلوم نہ ہو لیکن مرضی معلوم ہونی چاہیے۔ یہ کام ہے جائل کا کہ اگلے کی مرضی نہ دیکھئے پوچھنے کی پھر پوچھے۔ (موضح) مطلب یہ ہے کہ اس حقیقت کو جاننے کے بعد اگر آئندہ ایسا سوال کرو گے تو جائل بن کر رہ جائو گے۔ (روح)۔