وَقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور (پھر اللہ کا) حکم ہوا اے زمین ! اپنا پانی پی لے، اور اے آسمان ! تھم جا، اور پانی کا چڑھاؤ اتر گیا اور حادثہ انجام پا گیا اور کشتی جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا نامرادی اس گروہ کے لیے ہے جو ظلم کرنے والا گروہ تھا۔
ف 7۔ جودی پہاڑ عراق اور ترکی کے درمیانی علاقے میں جسے کردستان کہتے ہیں موصل کی جانب واقع ہے۔ تورات میں حضرت نوح ( علیہ السلام) کی کشتی ٹھہرنے کی جگہ ” ارارات“ بتائی گئی ہے جو ارمینیا کے اس پہاڑی سلسلے کا نام ہے جس سے دجلہ اور فرات نکلتے ہیں جو دی بھی اسی پہاڑی سلسلے کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ چند سال ہوئے مغربی سیاحو ں نے اس پہاڑ پر ایک بڑی کشتی کے ٹوٹے ہوئے تختے بھی دریافت کئے ہیں، اگرچہ ان کے متعلق قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ آیا یہ حضرت نوح کی کشتی کے ہی تختے ہیں یا کسی اور کشتی کے۔ واضح رہے کہ حضرت نوح کی قوم دجلہ اور فرات کی وادی ہی میں آباد تھی جو بعد میں عراق کے نام سے مشہور ہوئی۔ ف 8۔ یعنی سب ہلاک کردئیے۔ بائیبل (پیدائش :18۔24) کے بیان کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ یہ طوفان روئے زمین میں آیا تھا مگر بعض علما کا کہنا ہے کہ طوفان اسی علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح ( علیہ السلام) کی قوم آباد تھی۔ گو قرآن و حدیث میں اس کی کوئی تصریح نہیں ہے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ طوفان کے زمانے میں دنیا میں دجلہ و فرات کی وادی کے علاوہ کسی اور جگہ کوئی آبادی ہی نہ ہو۔