قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ
اس نے کہا میں کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا، وہ مجھے پانی کی زد سے بچا لے گا، نوح نے کہا، (تو کس خیال خام میں پڑا ہے؟) آج اللہ کی (ٹھہرائی ہوئی) بات سے بچانے والا کوئی نہیں مگر ہاں وہی جس پر رحم کرے اور (دیکھو) دونوں کے درمیان ایک موج حائل ہوگئی۔ پس وہ انہی میں ہوا جو ڈوبنے والے تھے۔
ف 6۔ یا دوسرا ترجمہ یہ ہوسکتا ہے اور وہی لفظی ترجمی بھی ہے کہ آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے مگر جو رحم کرنے والا ہے۔ (یعنی خود اللہ تعالی) آیت میں یہ ایک وجہ ہے جو محققین نے ذکر کی ہے اور یہی قویٰ ہے کیونکہ فاعل کا صیغہ زیادہ تر صفت کے لئے آتا ہے اور نسبت کے لئے کم استعمال ہوتا ہے۔ (روح)۔