سورة ھود - آیت 27

فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس پر قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی کہا ہم تو تم میں اس کے سوا کوئی بات نہیں دیکھتے کہ ہماری ہی طرح کے ایک اادمی ہو اور جو لوگ تمہارے پیچھے چلے ہیں ان میں ان ان لوگوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا جو ہم میں کمینے ہیں اور بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے ہو لیے ہیں۔ ہم تو تم لوگوں میں اپنے سے کوئی برتری نہیں پاتے۔ بلکہ سمجھتے ہیں تم جھوٹے ہو۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2۔ مکہ کے لوگ بھی آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہی بات کہا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری طرح کا بشر ہو جو کھاتا پیتا، بازاروں میں چلتا پھرتا، سوتا جاگتا اور بال بچے رکھتا ہو آخر وہ اللہ کا رسول ﷺ کیسے ہوسکتا ہے۔ (دیکھئے سورۃ فرقان آیت 7) مطلب یہ ہے کہ رسالت اور بشریت میں تضاد ہے اور یہ کہ ان دونوں کا ایک شخص میں اجتماع محال ہے۔ ف 3۔ یعنی اس وہ سے بھی آپﷺ کو ہم پر کوئی فضیلت نہیں ہے کہ کچھ لوگ آپﷺ کے متبع ہوگئے ہیں کیونکہ وہ تو ہمارے رذالے ہیں جن کا کسی شخص کی اتباع کرنا کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ بعینہ یہی بات مکہ کے کھاتے پیتے سردار نبی ﷺ کے بارے میں کہا کرتے کہ ان کی پیروی ہماری قوم کے غلام اور نچلے طبقے کے لوگ کرتے ہیں۔ (دیکھئے انعام آیت 54)۔ ف 4۔ یعنی بلا سوچے سمجھے۔ یا وہ اس قسم کے لوگ ہیں جو گہری سمجھ کے مالک نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر غوروفکر کرتے اور ذرا تامل سے کام لیتے تو تمہاری اتباع نہیں کرسکتے تھے۔ اگر یہ ’’ بَادِيَ ٱلرَّأۡيِنَرَىٰكَ “ کی ظرف ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ ان کی رذالت بالکل واضح ہے۔ (کذا فی الروح)۔ ف 5۔ یعنی تم لوگوں کو۔ یہ خطاب حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ان کے ماننے ولوں سے ہے۔ ف 6۔ تم جو یہ کہتے ہو کہ نوح (علیہ السلام) خد اکے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔