أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
پھر کیا یہ لوگ ایسا کہتے ہیں کہ اس آدمی نے قرآن اپنے جی سے گھڑ لیا ہے؟ (اے پیغمبر) تو کہہ دے اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو تو اس طرح کی دس سورتیں گھڑی ہوئی بنا کر پیش کردو، اور اللہ کے سوا کسی کو (اپنی مدد کے لیے) پکار سکتے ہو پکار لو۔ (١)
ف 3۔ یعنی اگر تمہیں اس قرآن کے خدا کا کلام ہونے میں شک و شبہ ہے تو تم سب جمع ہو کر اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش کرو۔ واضح رہے کہ قرآن میں متعدد مرتبہ عرب کو تحدی کی گئی ہے۔ سورۃ اسراء (آیت 88) میں پورے قرآن کے لئے چیلنج کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہاں سے سورتوں کے لئے تحدی کی گئی ہے اور سورۃ یونس (آیت 38) اور سورۃ بقرہ (آیت 23) میں ایک ہی سورۃ بنالانے کا چیلنج کیا گیا ہے۔ لیکن عرب پورا قرآن یا دس سورتیں تو کیا ایک سورۃ بھی بنا کر پیش نہ کرسکے۔ یہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ (ابن کثیر)۔ واضح رہے کہ قرآن کا معجز ہونا جیسے اس کی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہے اسی طور پر وہ اپنے اسلوبِ بیان اور تناقض پر مشتمل نہ ہونے کے اعتبار سے بھی معجز ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر)۔