أَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ ۚ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
(اے پیغمبر) تو سن رکھ کہ یہ لوگ اپنے سینو کو لپیٹے ہیں کہ اللہ سے چھپیں (یعنی اپنے دل کی باتیں چھپا کر رکھتے ہیں) مگر یاد رکھ (انسان کی کوئی بات بھی اللہ سے پوشیدہ نہیں) یہ جب اپنے سارے کپڑے اوپر ڈال لیتے ہیں تو اس وقت بھی چھپ نہیں سکتے، جو کچھ یہ چھپا کر کریں اور جو کچھ کھلم کھلا کریں سب اللہ کو معلوم ہے، وہ تو سینوں کے اندر کا بھید جاننے والا ہے۔
ف 12۔ اوپر فرمایا کہ اگر اعراض کرو گے تو بڑے دن کے عذاب میں گرفتار ہوجائو گے۔ اب یہاں بتایا کہ باطنی اعراض بھی ظاہری اعراض کی طرح ہے (کبیر)۔ سینے کو لپٹینا ایک محاورہ ہے جس سے مراد ہے اعراض کرنا، یا غلط سوچنا، بے اصل شبہات سے اپنے دل کو تسلی دینا عقائد حقہ سے اعراض کرنا وغیرہ کیونکہ یہاں صدور سے مراد علومِ صدر ہیں۔ (فتح الرحمن)۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے سینوں میں جو کفر و عناد رکھتے ہیں اور اسے چھپا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ان کے راز ہائے بستہ کی اطلاع نہ ہونے پائے۔ (شوکانی)۔ ف 13۔ یعنی جب اپنا سارا بدن چھپا کر اپنے دروازے بند کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے اصل حال کی اطلاع کون پاسکتا ہے؟ کپڑے لپیٹنا کنایہ ہے رات کو کپڑے اوڑھ کر بستروں پر سونے سے۔ اس حالت کو خاص طور پر اس لئے بیان فرمایا کہ ایسے وقت میں ہی عموماً خیالات اور وساوس دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ (رازی)۔ ف 14۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : کافر کچھ مخالفت کی بات گھر میں کہتے، اس کا جواب قرآن میں اترتا۔ تب سے ایسی بات کہتے، تو کپڑا اوڑھ کر دوہرے ہو کر اللہ تعالیٰ نے یہ نازل کیا۔