وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ
اور (اے پیغمبر) اگر تیرا پروردگار چاہتا تو جتنے آدمی روئے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے (اور دنیا میں اعتقاد کا اختلاف باقی ہی نہ رہتا لیکن تو دیکھ رہا ہے کہ اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس کی مشیت یہی ہوئی کہ طرح طرح کی طبیعتیں اور طرح طرح کی استعداد دیں ظہور میں آئیں، پھر اگر لوگ نہیں ماتے تو) کیا تو ان پر جبر کرے گا کہ جب تک ایمان نہ لاؤ میں چھوڑنے والا نہیں؟
ف 7۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو فرشتوں کی طرح جنوں اور انسانوں کی فطرت بھی ایسی بنا دیتا کہ کہ وہ کفرو نافرمانی کر ہی نہ سکتے یا ان سب کے دل ایمان و اطاعت کی طرف پھیر دیتا لیکن اس طرح چونکہ جنوں یا انسانوں کوعلیحدہ نوع کی حیثیت سے پیدا کرنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اس لئے اس نے اپنی مرضی سے ان کی فطرت میں یہ چیز رکھی ہے کہ وہ عقل سے کام لے کر چاہے ایمان وطاعت کا راستہ اختیار کریں یا کفرو نافرمانی کا۔ ف 8۔ نبی ﷺ کی ازراہِ شفقت یہ زبردست خواہش تھی کہ اللہ کے سب بندے ایمان لے آئیں، اس لئے اس آیت میں آپ کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ یہ چونکہ ہونے والے بات نہیں اس لئے آپﷺ کیوں اپنے آپ کو رنج و کرب میں مبتلا کرتے ہیں۔ (کذافی الوحیدی)۔