فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
اور اگر تمہیں اس بات میں کسی طرح کا شک ہو جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو تمہارے زمانے سے پہلے کی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں (یعنی اہل کتاب) کہ یقینا یہ سچائی ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر اتری ہے تو ہرگز ایسا نہ کرنا کہ شک کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔
ف 1۔ اس سورت کا اصل موضوع آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ثبوت اور مخالفین کے شبہات کی تردید ہے۔ یہاں آخر سورۃ میں پھر اصل موضوع کی طرف التفات کیا ہے۔ (کبیر) مشرکینِ عرب چونکہ ان پڑھ اور اصمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے اس لئے انکو توجہ دلائی ہے کہ اگر تمہیں خود علم نہیں ہے تو ان علمائے یہود سے دریافت کرلو جو توراۃ وغیرہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے ہیں۔ ان میں سے جو منصف مزاج اور خدا سے ڈرنے والے ہیں وہ اقرار کریں گے کہ قرآن واقعی آسمانی کتاب اور محمد ﷺ کے سچے رسول ہیں کیونکہ ان کی کتابوں میں جگہ جگہ آپﷺ کی آمد کی بشارتیں موجود ہیں اور آپﷺ کی علامات بیان کی گئی ہیں۔ الغرض یہ خطاب تو آنحضرتﷺ سے ہے مگر مقصود عرب کو توجہ دلانا ہے ورنہ آپﷺ کو اپنی رسالت پر شک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : خود آنحضرت ﷺ کو کوئی شک نہ تھا اور نہ آپﷺ نے کسی سے دریافت کیا۔ (شوکانی)۔