فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
پس ااج ہم ایسا کریں گے کہ تیرے جسم کو (سمندر کی موجوں سے) بچا لیں گے، تاکہ ان لوگوں کے لیے جو تیرے بعد آنے والے ہیں (قدرت حق کی) ایک نشانی ہو اور اکثر انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں کی طرف سے یک قلم غافل رہتے ہیں۔
ف 9۔ آج تک جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر اس مقام کی نشاندہی کی جاتی ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تریتی ہوئی پائی گئی تھی۔ اس زمانے میں اس مقام کو جبل فرعون یا حمام فرعون کہا جاتا ہے اس کی جائے وقوع ابو زنیمہ (جہاں تانبے وغیرہ کی کانیں ہیں) سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے آج قاہرہ کے عجائب گھر میں جن فراعنہ کی لاشیں موجود ہیں۔ ان میں ایک لاش کو اسی فرعون کی لاش بتایا جاتا ہے۔ 1907 ء میں جب فراعنہ کی یہ لاشیں دریافت ہوئی تھیں تو اس فرعون کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو سمندر کے کھارے پانی میں اس کی غرقابی کی کھلی علامت تھی۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جیسا وہ بے وقوف ایمان لایا بے فائدہ ویسا ہی اللہ نے مرگئے پیچھے اس کا بدن دریا سے نکال کر ٹیلے میں ڈال دیا تاکہ بنی اسرائیل دیکھ کر شکر کریں اور عبرت پکڑیں۔ اس کو بدن کے بچنے سے کیا فائدہ؟۔ (موضح)۔ تنبیہ: فتوحات مکیہ میں فرعون کا ایمان معتبر ہونا مندرج ہے۔ صاحب ” بواقیت“ نے اس کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ فتوحات کے معتبر نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے۔ ف 10۔ یعنی ان پر غور نہیں کرتے اور ان سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ اگر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی بساط کیا ہے۔ یہ واقعہ محرم عاشورا کے دن پیش آیا۔ (ابن کثیر)۔