سورة یونس - آیت 74

ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر نوح کے بعد ہم نے (کتنے ہی) رسولوں کو ان کی قوموں میں پیدا کیا، وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے تھے اس پر بھی ان کی قومیں تیار نہ تھیں کہ جو بات پہلے جھٹلا چکی ہیں اسے (دلیلیں دیکھ کر) مان لیں، سو دیکھو جو لوگ (سرکشی اور فساد میں) حد سے گزر جاتے ہیں ہم اسی طرح ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4۔ یہاں نوح (علیہ السلام) کے بعد جن پیغمبروں کے مبعوث ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ا ن میں ہود ( علیہ السلام)، صالح ( علیہ السلام)، ابراہیم، ( علیہ السلام) لوط ( علیہ السلام) اور شعیب علیہم السلام خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کا تذکرہ قرآن کے دوسرے مقامات پر مرقوم ہے۔ اورإِلَىٰ قَوۡمِهِمۡ کے الفاظ سے اشارہ فرما دیا ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ان کے بعد جتنے پیغمبر ہوئے ہیں ان میں سے کسی کی رسالت بنی نوع انسان کے لئے عام نہیں تھی بلکہ خاص خاص اقوام کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ البتہ حضرت نوح کی بعثت میں اختلاف ہے اور صحیح یہی ہے کہ وہ بھی خاص طور پر اپنی قوم کی طرف ہی مبعوث تھے اور طوفان سے روئے زمین کے لوگ غرق نہیں ہوئے بلکہ خاص علاقہ تباہ و برباد ہوا ہے۔ یہ درجہ آنحضرت ﷺ کو حاصل ہے کہ ان کی رسالت عام بھی ہے اور پھر قیامت تک کیلئے باقی بھی رہے گی۔ (کبیر۔ روح) یہاں حد سے بڑھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی غلط روش پر اڑے رہتے ہیں اور چاہے کتنے ہی معجزے دیکھ لیں اور دلیلیں سن لیں مگر جس چیز سے ایک مرتبہ انکار کر بیٹھے اسے کبھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ آخر کار یہ سزا دیتا ہے کہ انہیں کبھی راہ ہدایت پانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کا ان کے دلوں پر مہر لگانے کا۔ (دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 7)۔