قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ الْغَنِيُّ ۖ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَٰذَا ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
یہ کہتے ہیں اللہ نے اپنا ایک بیٹا بنا رکھا ہے، اس کے لے تقدیس ہو، وہ تو (اس طرح کی تمام احتیاجوں سے) بے نیاز ہے، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کے لیے ہے، تمہارے پاس ایسی بات کہنے کے لیے کون سی دلیل آگئی؟ کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی بات کہنے کی جرات کرتے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں؟
ف 4۔ یہاں ان کے ایک اور غلط عقیدہ اور باطل خیال کی تردید کی ہے۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے۔ ان کے اس عقیدہ کی بنیاد بھی چونکہ محض ظن و تخمین پر تھی اس لئے یہاں ” إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ “ کے تحت اس کی بھی تردید فرمادی۔ (سید احمد حسن)۔ ف 5۔ یہ اس تردید کی دلیل ہے کہ اللہ کسی کا محتاج نہیں کہ اس کو بیٹے بیٹی کی ضرورت ہو۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ پھر اولاد کا حاصل کرنا، شہوت و لذت کو چاہتا ہے اور اولاد وه هی حاصل کرتا ہے جو فانی ہوتاکہ اس کے فنا ہونے کے بعد اولاد اس کی قائم مقام ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی اور ابدی ہے اور شہوت و لذت سے پاک اور بالا۔ لہٰذا اس کی طرف اولاد کی نسبت سرے سے محال ہے۔ (رازی۔ شوکانی)۔ ف 6۔ دلیل سے ان کے عقیدہ کو رد کرنے کے بعد مزید انکار و توبیخ کے طور پر فرمایا کہ ان کے پاس اس کی قطعاً کوئی دلیل نہیں ہے۔ (کبیر) اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ بات جس کے ساتھ اس کی دلیل نہ ہوقابلِ التفات نہیں ہوتی۔ (شوکانی)۔ ف 7۔ نہایت مبالغہ کے ساتھ ان کے زعم کی تردید ہے یعنی محض جہالت سے اللہ تعالیٰ پر بہتان تراشی کر رہے ہیں۔ (از شوکانی)۔