سورة یونس - آیت 59

قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) تم ان سے کہو کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ جو روزی اللہ نے تمہاری لیے پیدا کی ہے تم نے (محض اپنے اوہام و ظنوں کی بنا پر) اس میں سے بعض کو حرام ٹھہرا دیا بعض کو حلال سمجھ لیا ہے، تم پوچھو ( یہ جو تم نے حلال و حرام کا حکم لگایا تو) کیا اللہ نے اس کی اجازت دی ہے یا تم اللہ پر بہتان باندھتے ہو؟

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 9۔ جیسے سائبہ، وصیلہ اور حام کو حرام اور مردار کو حلال ٹھہرالیا۔ ان چیزوں کا بیان سورۃ مائدہ اور انعام میں گزر چکا ہے۔ ف 1۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی خواہشوں سے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینا افتراء علی اللہ ہے۔ (ابن کثیر)۔ قاضی شوکانی فرماتے ہیں : ” اس آیت میں ان مقلد حضرات کے لئے سخت تنبیہ ہے جو افتا کی کرسی پر براجمان ہوجاتے ہیں اور حلال و حرام و جواز و عدم جواز کے فتو ے صادر کرتے ہیں حالانکہ ان کا مبلغ علم صرف اتنا ہوتا ہے کہ امت کے کسی ایک شخص نے جو بات کہدی ہے اسے نقل کردیتے ہیں گویا انہوں نے اس شخص کو ایک شارع کی حیثیت دے رکھی ہے کتاب و سنت کے جس حکم پر اس نے عمل کیا اس پر یہ بھی عمل کریں گے اور جو چیز اسے نهیں پہنچی یا پہنچی مگر وہ اسے ٹھیک طرح سمجھ نہ سکا یا سمجھا مگر اپنے اجتہاد و ترجیح میں غلطی کر بیٹھا وہ ان کی نظر میں منسوخ اور مرفوع الحکم ہے حالانکہ جس کی یہ لوگ تقلید کر رہے ہیں وہ بھی اس شریعت اور اس کے احکام کا اسی طرح پابند تھا جس طرح خود یہ لوگ۔ اس نے اجتہاد سے کام لیا اور جس رائے پر پہنچا اسے بیان کردیا۔ اگر اس نے غلطی نہیں کی تو اسے دوہرا اجر ملے گا اور اگر غلطی کی تو اکہرا اجر پائے گا۔ وہ شخص تو اپنی جگہ معذور ہے مگر یہ حضرات کسی طرح بھی معذور قرار نہیں دئے جاسکتے جنہوں نے اس کی آراء کو ایک مستقل شریعت اور قابل عمل دلیل بنا لیا۔ اہل علم کے نزدیک کسی مجتہد کی تقلید کی بنا پر اس کے اجتہاد پر عمل کرنا صحیح نہیں ہے۔ (شوکانی)۔