وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور (آنے والا عذاب اس درجہ ہولناک ہے اور اس کا وقوع اس درجہ قطعی ہے کہ) اگر ہر ظالم انسان کے قبضہ میں وہ سب کچھ آجائے جو روئے زمین میں ہے تو وہ ضرور اسے اپنے فدیہ میں دے دے، اور دیکھو جب انہوں نے عذاب اپنے سامنے دیکھا تو (اپنی سرکشی و انکار یاد کر رکے) دل ہی دل میں پچھتانے لگے پھر ان کے درمیان (یعنی مومنوں اور سرکشوں کے درمیان) انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور ایسا کبھی نہ ہوگا کہ ان پر کسی طرح کی زیادتی واقع ہو۔
ف 3۔ یعنی جس عذاب کا وہ ساری عمر مذاق اڑاتےر ہے۔ جب وہ ان کی توقع کے بالکل خلاف یکایک سامنے آجائے گا تو ان کی عجیب کیفیت ہوگی۔ ایک طرف وہ سخت شرمندہ ہوں گے اور ان کے ضمیر انہیں کوس رہے ہوں گے لیکن دوسری طرف وہ اپنی شرمندگی کو اپنے ساتھیوں اور ماننے والوں سے چھپانا بھی چاہیں گے کہ کہیں وہ ملامت نہ کریں۔ اس لیے دل ہی دل میں شرمندہ ہوں گے اور بظاہر مطمئن بننے کی کوشش کریں گے۔ بعض نے ” أَسَرُّواْ “ کے معنی اظہار بھی کئے ہیں۔ (از کبیر۔ شوکانی)۔ ف 4۔ اس لئے کہ یہ عذاب ان کے کرتوتوں کا ثمرہ ہوگا۔