سورة یونس - آیت 49

قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) تم کہہ دو (یہ معاملہ کچھ میرے اختیار میں نہیں کہ بتلا دوں کب واقع ہوگا) میں تو خود اپنی جان کا بھی نفع نقصان اپنے قبضہ میں نہیں رکھتا۔ وہی ہوتا ہے جو اللہ نے چاہا ہے، ہر امت کے لیے (پاداش عمل کا) ایک مقررہ وقت ہے اور جب وہ وقت آ پہنچتا ہے تو پھر نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 10۔ تو دوسروں کو نفع یا نقصان پہنچانا یا ان پر اپنی مرضی سے عذاب نازل کرنا میرے اختیار میں کیونکر ہوسکتا ہے۔ (وکائی) یہ منکرین نبوت کے پانچویں شبہ کا جواب ہے کہ آنحضرتﷺ جب ان کو عذاب کی دھمکی دیتے تو وہ متی ھذا الوعد کہہ کر اعتراض کرتے۔ اگلی آیت میں اسی کا جواب ہے۔ (کبیر)۔ ف 11۔ یعنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی پر موقوف ہے۔ وہی جب چاہے گا تم پر عذاب بھیجے گا اور جب تک نہیں چاہے گا نہیں بھیجے گا۔ قاضی شوکانی فرماتے ہیں : اس آیت میں جن لوگوں کو سخت تننبیہ ہے جو مصیبتوں اور مشکل کی گھڑیوں میں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی ٹال نہیں سکتا۔ نبی ﷺ کو پکارتے اور آپﷺ سے مدد طلب کرتے ہیں یا نبی ﷺ سے ایسے چیزیں چاہتے ہیں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی پورا نہیں کرسکتا۔ یہ مقام صرف اللہ رب العالمین کا ہے جس نے تمام انبیاء، صالحین اور مخلوقات کو پیدا کیا۔ وہی انہیں روزی اور زندگی بخشتا اور جب چاہتا ہے اس دنیا سے اٹھا لیتا ہے۔ پھر کسی نبی یا کسی فرشتے یا کسی نیک سے نیک ندے سے کسی اور چیز کی درخواست کیونکر کی جاسکتی ہے جس پر اسے قدرت ہی حاصل نہیں۔ اس آیت میں نصیحت کا خاص پہلو یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کے بارے میں جو تمام اپنی آدم کے سردار اور تمام انبیاء ﷺ سے افضل میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خود اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں تو کوئی ولی۔ امام یا پیر اپنے علاوہ کسی دوسرے کے نفع و نقصان کا مالک کیونکر ہوسکت اہے۔ سخت تعجب کا مقام ہے کہ پھر بھی کچھ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں۔ مردوں کی قبروں پر جھکتے اور ان سے ایسی ایسی مرادیں طلب کرتے ہیں جنہیں پورا کرنے کی قدرت اللہ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ یہ صریحاً شرک اور کلمہ ” لا الہ الا اللہ“ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور اس سے بڑھ کر افسوس ان کے علما اور مشائخ پر ہے جو انہیں اس کام سے منع نہیں کرتے۔ یہی وہی جاہلیت ہے جو نبی ﷺ سے پہلے عربوں میں پائی جاتی تھی بلکہ اس کا معاملہ اس جاہلیت سے زیادہ سخت ہے کیونکہ عرب مشرکین نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھتے تھے اور بتوں کو صرف اپنا سفارشی خیال کرتے تھے مگر یہ لوگ تو قبر والوں کو نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہیں اور کبھی ان کو علیحدہ اور کبھی اللہ تعالیٰ کیساتھ پکارتے ہیں۔ اس امت کے کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں شیطان مردود نے اس ذریعہ سے کفر کی راہ پر ڈال دیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہوئے اس پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ انھم یعسنون صنعا کہ وہ بڑا نیک کام کر رہے ہیں۔ فانا اللہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے۔ (مختصرا شوکانی)