وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور (یاد رکھو) ہر امت کے لیے ایک رسول ہے (جو ان میں پیدا ہوتا ہے اور انہیں دین حق کی طرف بلاتا ہے) پھر جب کسی امت میں اس کا رسول ظاہر ہوگیا تو (ہمارا قانون یہ ہے کہ) ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ ناانصافی ہو۔
ف 8۔ پیغمبر اور اس کے ساتھی بچ گئے اور جھٹلانے والے تباہ ہوگئے۔ (نیز دیکھئے سورۃ اسراء آیت 15) اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود اس قوم کا فیصلہ ہوگیا اور وہ اس طرح کہ اس کے دو گروہ ہوگئے۔ جو ایمان لائے بچ گئے اور جو ایمان نہ لائے تباہ ہوگئے۔ ف 9۔ یعنی وہ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے تباہ کردئیے جاتے ہیں۔ انہیں بے گناہ سزا نہیں دی جاتی اور نہ حجت تمام کئے بغیر ان کا مواخذہ کیا جاتا ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : عمل بد آگے سے ہوتے ہیں لیکن رسول ﷺ پہنچ کر سزاملتی ہے۔ (موضح)۔