سورة یونس - آیت 39

بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

نہیں یہ بات نہیں ہے، اصل حقیقت ی ہے کہ جس بات پر یہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے اور جس بات کا نتیجہ ابھی پیش نہیں آیا اس کے جھٹلانے پر آمادہ ہوگئے، ٹھیک اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، تو دیکھو ظلم کرنے والوں کا کیسا کچھ انچام ہوچکا ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6۔ محمد ﷺ نہ تو پڑھے لکھےہیں اور نہ انہوں نے کسی عالم کی صحبت پائی ہے۔ ان کے مقابلے میں تم میں بڑے بڑے شاعر اور نامور ادیب موجود ہیں۔ جنہیں اپنی زبان دانی اور فصاحت و بلاغت پر غرہ ہے۔ ان سب کو بلا کر ایک ہی ایسی صورت بنا کر پیش کردو جس میں قرآن کی سی فصاحت و بلاغت اور دوسری خوبیاں پائی جاتی ہوں۔ اگر تم ایسا کرسکو تو تمہارا یہ گمان صحیح ہوسکتا ہے کہ یہ قرآن بھی محمدﷺ نے از خود یا دوسرے کی مدد سے تصنیف کرلیا ہے۔ لیکن اگر تم ایسا نہ کرسکو اور یقینا تم ایسا نہ کرسکو گے تو معلوم ہوا کہ تمہارا یہ گمان سراسر بے بنیاد اور ضدو عناد اور تعصب پر مبنی ہے۔ نیز دیکھئے بقرہ آیت 23)۔ ف 7۔ یعنی یہ لوگ جو قرآن کو جھٹلا رہے اور اس پر ایمان لانے سے انکار کرر ہے ہیں، اس کی بنیا دجہالت، ہٹ دھرمی اور باپ دادا کی اندھی تقلید پر ہے۔ انہوں نے نہ اس پر کبھی غور کیا اور نہ اس کے مضامین و مطالب سمجھنے کی کوشش کی۔ محض یہ دیکھ کر کہ قرآن ان کے موروثی عقائد و خیالات کی تردید کرتا ہے۔ انہوں نے جھٹ سے اس کا انکار کردیا۔ ورنہ قرآن کا ایسے حقائق کے بیان پر مشتمل ہونا جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں اور ان کے ہدف ادراک سے باہر ہیں کسی طور وجہ تکذیب نہیں بن سکتا۔ (روح۔ کبیر)۔ یہی حال ان حضرات کابھی ہے جو محض اپنے بزرگوں اور اماموں کی تقلید کے چکر میں پھنس کر صحیح سے صحیح حدیث سے انکار کردیتے ہیں حالانکہ اگر وہ ان صحیح احادیث پر غور کرتے اور انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے تو کبھی کسی صحیح حدیث کو رد نہیں کرسکتے تھے۔ (کذافی الوحیدی)۔ ف 8۔ یعنی ان کے قرآن کو جھٹلانے کی اگر کوئی بنیاد ہے تو وہ یہ کہ وہ اس کی تاویل و تفسیر سمجھنے سے قاصر ہیں اور قرآن جن اخبار غیبیہ پر مشتمل ہے ان کا وقوع ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہے۔ ورنہ اگر وہ غوروفکر کرتے اور جن امور کی پیش گوئی قرآن میں کی گئی ہے ان کے وقوع کا انتظار کرتے تو ان کا انکار از خود ہی زائل ہوجاتا۔ (ازروح المعانی)۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ یعنی جو وعدہ ہے اس قرآن میں وہ ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ (موضح)۔ ف 9۔ سب کے سب تباہ و برباد ہوئے۔ اسی طرح اب یہ بھی اپنی تباہی و بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ (کبیر)۔