وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور (ابتدا میں) انسانوں کی ایک ہی امت تھی، پھر الگ الگ ہوگئے، اور اگر تمہارے پروردگار کی جانب سے پہلے ایک بات نہ ٹھہرا دی گئی ہوتی (یعنی لوگ الگ الگ راہوں میں چلیں گے اور اسی اختلاف میں ان کے لیے آزمائش عمل ہوگی) تو جن باتوں میں لوگ اختلاف کرر ہے ہیں ان کا فیصلہ کبھی کا ہوچکا ہوتا۔
ف ٩۔ اس زمانے کے ملحد فلسفیوں اور تاریخ دانوں کے برعکس قرآن یہ بار بار اعلان کرتا ہے کہ انسانیت کی ابتداء کفر یا شرک سے نہیں بلکہ خالص توحید سے ہوئی۔ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین۔ اسلام۔ رکھتے تھے اور ایک ہی ان کی ملت تھی لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے اس دین سے انحراف کیا اور آپس میں اختلاف کرکے اپنی مرضی کے ادیان اور قوانین گھڑ لئے۔ (نیز دیکھئے بقرہ آیت ٣١٢) ف ١۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کرلیا ہوتا کہ دنیا میں لوگوں کو مہلت دی جائے گی تاکہ اپنی عقل و فہم سے کام لے کر جس راستہ کو چاہیں اختیار کریں اور جس راستہ کو چاہیں چھوڑ دیں اور قیامت ہی کیدن انہیں ان کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو کبھی کا اللہ تعالیٰ حقیقت کو بے نقاب کرکے ان لوگوں کو پکڑ چکا ہوتا جو ایمان کا راستہ چھوڑ کر کفرو شرک کے راستہ پر چل رہے ہیں۔ (از ابن کثیر۔ قرطبی)۔