وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور (اے پیغمبر) جب تم ہماری واضح آیتیں انہیں پڑھ کر سناتے ہو تو جو لوگ (مرنے کے بعد) ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، وہ کہتے ہیں اس قرآن کے سوا کوئی دوسرا قرآن لاکر سناؤ، یا اسی (کے مطالب) میں رد و بدل کردو، تم کہو میرا یہ مقدور نہیں کہ اپنے جی سے اس میں ردو بدل کردوں، میں تو بس اسی حکم کا تابع ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے۔ میں ڈرتا ہوں اگر اپنے پروردگار کے حکم سے سرتابی کروں تو عذاب کا ایک بہت بڑا دن آنے والا ہے۔
ف 3۔ اس آیت میں نبوت پر ان کے تیسرے شبہے کا جواب ہے (کبیر) مطلب یہ ہے کہ مشرکین آنحضرت ﷺ پر تہمت لگاتے کہ یہ قرآن اپنے پاس سے بنا کرلے آتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے تجربہ اور امتحان کے لئے یا استھزا کے طور پر آنحضرت ﷺ سے مطالبہ کیا کہ اس قرآن کے علاوہ ایک دوسرا قرآن بھی بنا لائو جس میں ہمارے بتوں کی مذمت نہ ہو اور یا اسی میں کچھ ردوبدل کردو اور ہمارے عقائد و رسوم کے رد اور بتوں کی مذمت پر جو آیات مشتمل میں ان کو نکال دو۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کا جواب دیا ہے کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ انہیں بتا دیں کہ میں وحی الٰہی کے تابع ہوں اور اپنے پاس سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ (رازی)