رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور خدایا (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیو کہ اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جو انہی میں سے ہو وہ تیری آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائے، کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور (اپنی پیغمبرانہ تربیت سے) ان کے دلوں کو مانجھ دے۔ اے پروردگار ! بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو حکمت والی اور سب پر غالب ہے
ف 3 :یہ حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) کی دعا کی کا خاتمہ ہے رَسُولًاسے مراد آنحضرت (ﷺ) ہیں کیونکہ حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی ذریت میں آنحضرت (ﷺ) کے سوا کوئی دوسرا نبی نہیں ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا، عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔ زمانہ حمل میں آمنہ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے ہیں۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا تو قرآن نے ذکر کیا ہے۔ اور خواب میں شام کی تخصیص اس لیے ہے کہ آخر زمانہ میں شام ہی اسلام کا مرکز بنے گا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول بھی شام میں ہوگا اور حدیث میں جس گروہ حقہ کی تاقیامت رہنے کی خبر دی گئی ہے وہ بھی شام میں ہوں گے۔ (ابن کثیر۔ بحوالہ مسند احمد) الْكِتَابَسے مراد قرآن مجید اور الْحِكْمَةَسے مراد حدیث پاک ہے اور اسلام کی یہی دوبنیادی اصول ہیں تعلیم کتاب سے مراد اس کے معانی ومطالب کی وضاحت کرنا ہےاور ’’پاک‘‘ کرنے سے مراد یہ ہے کہ انہیں شرک ومعاصی سے پاک کرے اطاعت و اخلاص کی تعلیم دے۔ (قرطبی۔ فتح القدیر )