يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
مسلمانو ! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس (پھیلے ہوئے) ہیں اور چاہیے کہ وہ (جنگ میں) تمہاری سختی محسوس کریں (کہ بغیر اس کے جنگ جنگ نیہں) اور یاد رکھو اللہ ان کا ساتھی ہے جو (ہر حال میں) متقی ہوتے ہیں۔
ف 6۔ یعنی کفار میں سے جو لوگ تم سے جتنا زیادہ قریب ہیں اتنا ہی ان سے پہلے جہاد کرو۔ پھر ان سے جہاد کرو جو اُ ن کی بہ نسبت دور ہیں۔ چنانچہ اسی ترتیب کے ساتھ نبیﷺ نے پہلے اپنے خاص قبیلہ قریش سے جنگ کی پھر جزیرہ عرب کے دوسرے قبائل سے اور پھر بنی قریظہ بنی نضیر سے اور پھر خیبر اور فدک کے اہل کتاب سے جو مدینہ کے اردگرد تھے۔ جب ان سب سے فارغ ہوئے تو غزوہ تبوک کی مہم پر ملک شام کے عیسائیوں سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے۔ یہی ترتیب آپﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض)، حضرت عمر فاروق (رض)، شہید محراب (رض) اور دوسرے خلفانے ملحوظ رکھی۔ چنانچہ ان کے زمانے میں پہلے ملک شام فتح کیا گیا اور اس کے بعد ایران اور مصر پر حملہ کیا گیا۔ اس طرح مشرق و مغرب میں اسلام کا جھنڈا لہرانےلگا۔ (ابن کثیر)۔ ف 7۔ اس لئے کہ کامل مومن وہ ہے جو اپنے مسلمان بھائی کے لئے نرم اور کافر دشمن کے لئے سخت ہوجیسا کہ دوسری آیت میں صحابہ کرام (رض) کی یہ خوبی بتائی گئی کہ وہ İأَشِدَّآءُ عَلَى ٱلۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖĬ” کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل“ ہیں اور مومنین کی صفت میں فرمایا :İأَذِلَّةٍ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى ٱلۡكَٰفِرِينَĬمومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت“ ہوتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا : (اناالضّحُوكَ الْقَتّال)میں (اپنے ساتھیوں کے ساتھ) بہت ہنس مکھ اور (کافروں کو) بہت قتل کرنے والو ہوں۔ (ابن کثیر)۔ ف 8۔ یعنی اگر تم اللہ سے ڈرتے ہوئے اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے کافروں سے جنگ کرو گے تو وه تمہارے ساتھ ہوگا تمہیں کوئی طاقت زک نہیں پہنچا سکے گی۔ (ابن کثیر)۔