وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
اور (دیکھو) یہ ممکن نہ تھا کہ سب کے سب مسلمان (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں (اور تعلیم دین کے مرکز میں آ کر علم و تربیت حاصل کریں) پس کیوں نہ ایسا کیا گیا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکل آئی ہوتی کہ دین میں دانش و فہم پیدا کرتی اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنے گھروں میں واپس جاتی تو لوگوں کو (جہل و غفلت کے نتائج سے) ہوشیار کرتی تاکہ (برائیوں سے) بچیں؟
ف 5۔ یعنی ان کاموں سے بچے رہیں جن سے اس کے بعد منع کیا گیا۔ مفسرین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ جب ان لوگوں کو سخت لعنت ملامت کی گئی جو جہاد کے لئے نکلنے کی بجائے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے تھے تو مسلمانوں نے خیال کیا کہ اب کسی کیلئے جہاد کے موقع پر مدینہ میں ٹھہرے رہنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے بعد آنحضرت( ﷺ) جب بھی کفار سے جہاد کے لئے فوج بھیجنے کا ارادہ کرتے سب کے سب مسلمان جہاد پر جانے کیلئے تیار ہوجاتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مطلب یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے جہاد کو نکلنا اس وقت فرض ہے جب آنحضرت( ﷺ) خود روانہ ہورہے ہوں ورنہ تو انہی لوگوں پر جہاد کے لئے ضروری ہے جن کو حکم دیا جائے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت کا تعلق علم دین کے حاصل کرنے سے ہے یعنی اگرچہ تمام مسلمانوں کے لئے دین کا علم حاصل کرنے کے لئے نکلنا ضروری نہیں تھا مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر قبیلے میں سےکچھ لوگ نکلتے علم حاصل کرتے اور واپس آکر اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی دین کے احکام سے خبردار کرتے تاکہ وہ بری باتوں سے پرہیز کرتے۔ آیت کے الفاظ میں ان ہر دو مفہوم کا یکساں احتمال ہے اور اس کی رو سے جہاد اور طلب علم دونوں کے لئے نکلنا مسلمانوں کے لئے فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی اس کی ذمہ داری بحیثیت مجموعی سب پر عائد ہوتی ہے اور ان میں سے بعض افراد کا اسے سرانجام دینا ضروری ہے ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔ (کبیر۔ ابن کثیر)