وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ
اور ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لیے بخشائش کی آرزو کی تھی تو صرف اس وجہ سے کہ اپنا وعدہ پورا کردے جو وہ اس سے کرچکا تھا (یعنی اس نے کہا تھا میرے بس میں اور تو کچھ نہیں، دعا ہے تو اس سے بارز نہیں رہوں گا) لیکن جب اس پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ (کی سچائی) کا دشمن ہے (اور کبھی حق کی راہ اختیار کرنے والا نہیں) تو اس سے بیزار ہوگیا۔ بلاشبہ ابراہیم بڑا ہی دردمند بڑا ہی بردبار (انسان) تھا۔
ف 6 حضرت ابراہیم نے اپنے مشرک باپ سے یہ وعدہ اس وقت کیا تھا جب وہ اس سے جدا ہو کر بغرض ہجرت اپنے وطن سے نکلے تھے (دیکھیے سورۃ مریم آیت 47) چنانچہ حسب وعدہ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کی بھی۔ (دیکھیے شعرا آیت 42) مگر یہ اس وقت تک کی کیفیت کا ذکر ہے جب تک انہیں امید تھی کہ ان کا باپ شرک سے توبہ کر کے مسلمان ہوجائیگا آخر مایوس ہونے کے بعد برأت کا اعلان فرما دیا۔ (کبیر) اگر کوئی کافررشتے دار فوت ہوجائے تو مسلمان اس کی تجہیز و تکفین میں شریک تو ہوسکتا ہے مگر اس کے لئے دعائے مغفرت نہیں کرسکتا۔ (از ابن کثیر) ف 7 یا خدا کے حضور بہت آہیں بھرنے والے اور حلیم تھے کہ اگر کوئی سختی سے پیش آتا تو آپ نرمی سے جواب دیتے۔ (از ابن کثیر)