سورة التوبہ - آیت 111

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بلاشبہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لیں اور ان کا مال بھی، اور اس قیمت پر خرید لیں کہ ان کے لیے بہشت (کی جاودانی زندگی) ہو، وہ (کسی دنیوی مقصد کی راہ میں نہیں بلکہ) اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں، یہ وعدہ اللہ کے ذمہ ہوچکا (یعنی اس نے ایسا ہی قانون ٹھہرا دیا) تورات انجیل اور قرآن (تینوں کتابوں) میں (یکساں طور پر) اس کا اعلان ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون ہے جو اپنا عہد پورا کرنے والا ہو؟ پس (مسلمانو) اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ سے چکایا خوشیاں مناؤ اور یہی ہے جو بڑی سی بڑی فیروز مندی ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2 منافقین کے بیان سے فارغ ہونے کے بعد اب اس آیت میں جہاد کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ مروی ہے کہ لیلۃ العقبہ میں جب ستر آدمیوں سے آپ نے بیعت لی تو شرط کی کہ ایک اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ شرک نہ کرنا اور میری ذات کی اس طرح حفاظت کرنا جس طرح تم اپنے جان و مال کی حفاظت کرتے ہو۔ انصار نے کہا اگر ہم یہ کرلیں تو ہمارے لئے کیا ہوگا ؟ فرمایا ” الجنۃ“ کہ تمہارے لئے اس کے بدلہ جنت ہوگی۔ انصار نے اس پر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور کہا ہمیں منظور ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ذکرہ الحافظ فی الفتح (کبیر۔ ابن کثیر)