سورة التوبہ - آیت 100

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور مہاجرین اور انصار میں جو لوگ سبقت کرنے والے سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کی تو اللہ ان سے خوشنود ہو وہ اللہ سے خوشنود ہوئے، اور اللہ نے ان کے لیے (نعیم ابدی کے) باغ تیار کردیئے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور اس لیے وہ خشک ہونے والے نہیں) وہ ہمیشہ اس (نعمت و سرور کی زندگی) میں رہیں گے اور یہ ہے بہت بڑی فیروز مندی۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1 بعض اعراب (گنواروں) کا اخلاص اور ان کو رحمت کی خوش خبری سنانے کے بعد ان سے اعلیٰ مراتب کے لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا یعنی مہاجرین اور انصار جنہوں نے ہجرت و نصرت دین میں پہل کی۔ ان کی تعیین میں مفسرین سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اول سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی اور بعض نے بیعتِ رضوان (صلح حدیبیہ) میں شامل ہونے والے اور بعض نے بدری صحابہ مراد لیے ہیں۔ اور انصار سے مراد وہ لوگ ہیں جو بیعت عقبہ (اولیٰ و ثانیہ) میں شریک ہوئے اور پھر وہ لوگ جو مدینہ میں حضرت مصعب بن عمیر کی آمد پر مسلمان ہوگئے تھے۔ مگر ہجرت و نصرت کے اعتبار سے درجہ بدرجہ سبھی صحابہ مراد لیے جاسکتے ہیں۔ پھر صحابہ میں سب سے افضل حضرت ابوبکر کا درجہ ہے جو اسلام میں بھی اول ہیں اور ہجرت میں بھی آنحضرت (ﷺ) کے ساتھی ہیں۔ پھر بالترتیب دوسرے خلفا کے درجے ہیں۔ ان کے بعد باقی عشرہ مبشرہ جن میں طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، عبدالرحمن بن عوف اور ابو عبیدہ بن جراح (رض) شامل ہیں۔ پھر بدری عقبی صحابہ(رضی الله عنهم) کا درجہ ہے اور ان کے بعد وہ جو بیعت رضوان میں شریک ہوئے۔ صحابہ کی فضیلت کی اس ترتیب میں اہل السنت و الجماعۃ تقریبا متفق ہیں گو بعض علما حضرت علی کی افضیلت کے بھی قائل ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ حضرت علی(رض) نے حضرت ابوبکر(رض) کے بعد ہجرت کی تھی۔ (از کبیر و ابن کثیر) ف 2۔ ان سے مراد وہ صحابہ ہیں جو بعد میں ایمان لائے اور ہجرت بھی کی جیسا کہ سورۃ انفال آیت 75 میں مہاجرین اور انصار کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا :İ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنۢ بَعۡدُ وَهَاجَرُواْĬ کہ جو ان کے بعد ایمان لائے اور پھر ہجرت بھی کی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ " ٱتَّبَعُوهُم بِإِحۡسَٰن" سے قیامت تک کے وہ تمام مسلمان مراد ہوں جو صحابہ کرام کے نقش قدم پر ہیں اور ان کے قول و عمل میں احسان پایا جاتا ہے۔ بہرحال ان سے اصطلاحی تابعین ہی مراد نہیں ہیں۔ (کبیر۔ شوکانی) ف 3۔ چونکہ رضائے الٰہی کے حصول اور جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری جس علت پر مترتب ہورہی ہے وہ دائمی ہے یعنی ہجرت و نصرت میں پہل، اس لیے یہ بشارت بھی دائمی ہے۔ لہذا ان صحابہ میں سے العیاذ باللہ کسی ایک کے متعلق ارتداد کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ پھر کتنے بدبخت اور لعنتی ہیں وہ لوگ جو ان حضرات کے خلاف عموما اور ان افضل ترین ہستیوں (حضرت ابوبکر و حضرت عمر) کے خلاف خصوصا زبان درازی، سب و شتم اور تبرا بازی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اور ان کو برے القاب سے یاد کرتے ہیں۔( از وحیدی)