لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ناتوانوں پر بیماروں پر اور ایسے لوگوں پر جنہیں خرچ کے لیے کچھ میسر نہیں کچھ گناہ نہیں ہے (اگر وہ دفاع میں شریک نہ ہوں) بشرطیکہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں کوشاں رہیں (کیونکہ ایسے لوگ نیک عملی کے دائرے سے الگ نہیں ہوئے اور) نیک عملوں پر الزام کی کوئی وجہ نہیں، اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔
ف 6 یعنی معذور ہیں جیسے لنگڑے، لولے، اپاہج۔ اند ھے، بوڑھے، عورتیں اور بچے۔ ف 7 جس سے جہاد کی تیاری کرسکیں اور ہتھیار سواری وغیرہ فراہم کرسکین۔ ف 8 وہ کام نہ کرتے ہوں جس سے انہیں نقصان ق اور ان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ فرمایا الدین النعیحتہ۔ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کس کے لیے فرمایا : للہ ولکتابہ وارسولہ ولائمتہ المسمین وعامتھم۔ یعنی اللہ کے لیے اس کی کتاب کے لیے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مسلمانوں کے امام کے لیے اور مسلم عوام کے لیے ( شوکانی) عام لوگوں کی خیر خواہی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ جب مجاہدیں جہاد پر گئے ہوئے ہوں تو یہ لوگ شہر میں بیٹھے رہیں۔ نہ جھوٹی خبریں پھیلائیں نہ فساد وبر پاکریں مجاہدین کی خدمت کریں اور ان کے بال بچوں کی خبر گیری کریں۔ ( از وحیدی) ف 9 یعنی یہ لوگ معذور ہیں۔ اگر جہاد میں شرکت نہ کریں تو ان پر کچھ گناد نہیں ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کے سفر میں صحابہ کرام سے فرمایا تم اپنے پیچھے مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہو ہو کہ تم نے جو مسافت طے کی جو مال خرچ کیا ہے اور جس وادی کو پار کیا ہے۔ ان سب اعمال میں وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ ہمارے ساتھ کیسے ساتھ کیسے ہو نگے حالانکہ وہ تو مدینہ میں رہ گئے ہیں ؟ فرمایا انہیں صف عذر نے تمہارے آنے سے روک دیا ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ مگر وہ اجر میں تمہارے ساتھ شریک ہیں ( ابن کثیر بحوالہ صحیحین)