فَإِن رَّجَعَكَ اللَّهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ
تو (دیکھو) اگر اللہ نے تمہیں ان کے کسی گروہ کی طرف (صحیح سلامت) لوٹا دیا اور پھر (کسی موقع پر) انہوں نے ( جہاد میں) نکلنے کی اجازت مانگی تو اس وقت تم کہہ دینا نہ تو تم میرے ساتھ کبھی نکلو اور نہ کبھی میرے ساتھ ہو کر دشمن سے لڑو، تم نے پہلی مرتبہ بیٹھ رہنا پسند کیا تو اب بھی پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ (گھروں میں) بیٹھے رہو۔
ف 1 جو جنگ تبوک کے لیے نہیں نکلے تھے بلکہ گھروں میں بیٹھے رہے تھے۔ ف 2 یعنی ان لوگوں کے ساتھ جو بے عذر گھروں میں رہ گئے یا معذورں کے ساتھ جیسے عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، اپاہج، شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : یہ جو فرمایا کہ’’ اگر پھر لے جاوے اللہ کسی کو فرقہ کی طرف‘‘ وہ اس واسطے کہ یہ آیت سفر میں نازل ہوئی۔ یہ لوگ مدینہ میں منافق تھے اور فرقے اس واسطے فرمایا کہ بعض پیچھے مرگئے اور سب بیٹھنے والے منا فق نہ تھے۔ بعض مسلمان بھی تھے۔ کہ ان کی تقصیر معاف ہوئی۔ ( مو ضح )