وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ
اور اگر تم ان لوگوں سے پوچھو (ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟) تو یہ ضرور جواب میں کہیں ہم نے تو یونہی جی بہلانے کو ایک بات چھیڑ دی تھی اور ہنسی مذاق کرتے تھے تم (ان سے) کہو کیا تم اللہ کے ساتھ اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہو؟
ف 2 تبوک جاتے ہوئے کچھ منافقین بھی مسلمانوں کے ساتھ ہو لئے تھے لیکن راستے میں موقع بے موقعہ اللہ و رسول پر پھبتیاں کستے رہتے تھے، ایک موقع پر ان میں سے ایک شخص کہنے لگا، ۔ اس شخص کو دیکھو ( یعنی نبی (ﷺ) شام کے رومی قلعے فتح کرنا چاہتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ دوسرا بو لا کیا رومیوں کو بھی اس نے عربوں کی طرح کمزور سمجھ رکھا ہے۔ ؟ نبی (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قسم کی باتوں سے مطلع فرمادیا ۔ چنانچہ آپ (ﷺ) نے انہیں بلا بھیجا اور ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے اس قسم کی باتیں کی ہیں َ؟ وہ کہنے لگے۔ ہم تو یو نہی راستہ کا ٹنے کے لے گپ بازی اور اہنسی مذاق کی باتیں کر رہے تھے، امام رازی (رح) فرماتے ہیں۔ اس آیت کی شان نزول میں اور بھی اس قسم کی روایات مروی ہیں۔ مگر آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے صرف یہی بات کافی ہے کہ انہوں نے طعن و استہزا کے طور پر کوئی بات کہی اور آنحضرت (ﷺ) کے سامنے اس کو گپ بازی کا عنوان دے دیا۔ ( کبیر۔ ابن کثیر) ف 3 وہ لوگ بار بار معذرت کرتے۔ مگر آنحضرت (ﷺ) یہی فرماتے رہے۔ ( کبیر )