وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ ۚ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور انہی (منافقوں) میں (وہ لوگ بھی) ہیں جو اللہ کے نبی کو (اپنی بدگوئی سے) اذیت پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں یہ شخص تو بہت سننے والا ہے (یعنی کان کا کچا ہے، جو بات کسی نے کہہ دی اس نے مان لی، اے پیغمبر) تم کہو ہاں وہ بہت سننے والا ہے مگر تمہاری بہتری کے لیے (کیونکہ وہ بجز حق کے کوئی بات قبول نہیں کرتا) وہ اللہ پر یقین رکھتا ہے (اس لیے اللہ جو کچھ اسے سناتا ہے اس پر اسے یقین ہے) اور وہ (سچے) مومنوں کی بات پر بھی یقین رکھتا ہے (جن کی سچائی ہر طرح کے امتحانوں میں پڑ کر کھری ثابت ہوچکی ہے) اور وہ ان لوگوں کے سرتا سر رحمت ہے۔ جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھ لینا چاہیے ان کے لیے عذاب ہے عذاب دردناک۔
5۔ غلاموں کی آزادی حاصل کرنے میں۔ دی جائے۔ 6۔ غارمین سے مراد وہ قرضدار ہیں جو اپنے مال سے پوراقرض ادا کریں تو فیقر ہوجائیں۔ صرف جہاد اور غزوہ ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مجاہد کی زکوٰۃ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ ( ابو داؤؤد) ابن السبیل ( مسافر) یعنی اگر اثنائے سرف کیسی حادثہ سے اس کا مال تباہ ہوگیا ہو اور گھر سے سفر خرچ منگوانے کی کوئی صورت نہ وہ تو مال زکوٰۃ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔ زکو ٰۃ کے ان تمام مصارف میں زکوٰۃ صرف کان واجب نہیں ہے بلکہ حسب اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اجا زت دی ہے۔ ( کتاب اللسوالا بی عبید بروایت حضرت معاذ) ف 4 یعنی کان کا کچا ہے۔ ہر ایک کی بات سن کر اس پر اعتبار کرلیتا ہے ( از کبیر) ف 5 یعنی ہاں ک تمہاری بات اس حد تک صحیح ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ایک کی بات سن لیتے ہیں مگر یہ الزام صحیح نہیں ہے کہ ہر بات سن کر اس پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ اعتبار صرف اس بات کا کرتے ہیں جو سچی اور حقیقی ہوتی ہے جھوٹی با کو سن تو لیتے ہیں مگر اس پر صبر اور در گذر سے کام لیتے ہیں۔ یہ چیز تمہارے حق میں بہتر ہے۔ ورنہ یہ چھوٹی عذروں کی بنا پر یا تو کبھیکے قتل ہوچکے ہوتے۔ یا مدینہ سے باہر نکال دیے گئے ہوتے ( ازکبیر) ف 6 یہاں ایمان والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں چاہے دل سے ایمان دار نہ ہوں۔ ایسے لوگوں کے سامنے رحمت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے رازک کھولتے نہیں بلکہ اپنی اصلاح کرلینے کا موقع دیتے ہیں، ( فتح القدیر )