سورة التوبہ - آیت 60

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

صدقہ کا مال (یعنی مال زکوۃ) تو اور کسی کے لیے نہیں ہے۔ صرف فقیروں کے لیے ہے، اور مسکینوں کے لیے ہے، اور ان کے لیے جو اس کی وصولی کے کام پر مقرر کیے جائیں، اور وہ کہ ان کے دلوں میں (کلمہ حق کی) الفت پیدا کرنی ہے۔ اور وہ کہ ان کی گردنیں (غلامی کی زنجیروں میں) جکڑی ہیں (اور انہیں آزاد کروانا ہے) نیز قرض داروں کے لیے (جو قرض کے بوجھ سے دب گئے ہوں، اور ادا کرنے کی طاقت نہ رکھیں) اور اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کے لیے اور ان تمام کاموں کے لیے جو مثل جہاد کے اعلائے کلمہ حق کے لیے ہوں) اور مسافروں کے لیے (جو اپنے گھر نہ پہنچ سکتے ہوں اور مفلسی کی حالت میں پڑگئے ہوں) یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی بات ہے اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے تمام حکموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 منافقین کا طعن دور طعن دور کرنے کے لیے معارف صدقات بیان فرما دیئے کہ تقسیم صدقات میں پیغمبر کو اختیار نہیں ہے لہذا پیغمبر پر طعن نے سود ہے۔ اس آیت میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کئے ہیں اور وہ بھی کمہ انما کے ساتھ جو حٖصر کے معنی دیتا ہے یعنی اصناف ثانیہ ( آٹھ قسم کے لوگوں) کو علاوہ اور کسی کو زکواۃ دینا جائز نہیں ہے۔۔ اس حصر کی اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تو ان آٹھ قسموں میں سے ہے تو تیرا حق بنتا ہے ورنہ نہیں۔ اور فرمایا : غنی اور تندرست توانا کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں ہے۔ ( ابن کثیر) 1۔ فقیر اور مسکن 2۔ دونو کے معنی حاجتمند کے ہیں۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے مسکن کی تشریح کرتے ہو فرمایا : مسکین وہ ہ جو اپنی حاجت بھر مال نہ پاتوہو، نہ اپنی احتیاج ظاہر ہونے دیتا ہو۔ اور نہ سوال ہی کرتا ہو۔ ( بخاری مسلم) 3۔ عاملین سے مرا وہ لوگ ہیں جو صدقات وصو کرنے پو مامور ہوں، ان کی تنخواہ زکوٰۃ کی مد سے دی جاسکتی ہے۔ چا ہے وہ محتاج نہ بھی ہوں۔ 4۔ مئو لفتہ قلوبھم سے مراد وہ لوگ ہیں جو کواسلام پر ثابت قدم رکھنا مطلوب ہو۔ اس بارے میں میں امام (خلیفہ) کو اختیار ہے کہ جیسے مناسب سمجھے ان پر خرچ کرے فی الرقاب