وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ وَلَا يُنفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ
اور خرچ کرنے کی قبولیت سے وہ محروم نہیں کیے گئے مگر اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے انکار کیا (اگرچہ وہ ایمان کے دعوے میں کسی سے پیچھے نہیں) وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر کاہلی کے ساتھ، اور (راہ حق میں) مال خرچ نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ خرچ کرنے کی ناگواری ان کے دلوں میں بسی ہوئی ہے۔
ف 3 جیسے کسی پر زبر دستی بو جھ لاد دیا جائے۔ چونکہ ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہے اس لیے انہیں نماز ایک بو جھ معلوم ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ کفرباللہ کے ساتھ کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی۔ علمانے لکھا ہے کہ لوگوں کے سامنے ہو اتو نماز پڑھ لی اور اکیلا ہوا تو چھوڑ دی۔ یہ بھی کسل فی الصلوٰۃ ہے۔ ( کبیر) ف 4 جیسے کسی کو جرمانہ ادا کرنا پڑے کیونکہ انہیں ثواب سے تو کوئی غرض نہیں۔ جو کچھ دیتے ہیں محض لوگوں کی نگا ہوں میں بدنامی سے بچنے کے لیے دیتے ہیں۔ اسی بنا پر حدیث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا :( أدُّوا زكاةَ أموالِكم ، طَيِّبَةً بها أنفسُكم)۔ کہ طبیعت کی خوشی سے اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرو۔ ( رازی )