لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّىٰ جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ
(اے پیغمبر) یہ واقعہ ہے کہ ان لوگوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوششیں کیں اور تمہارے خلاف ہر طرح کی تدبیریں الٹ پلٹ کر آزمائیں (چنانچہ جنگ احد میں انہوں نے اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی تھی) یہاں تک کہ سچائی نمایاں ہوگئی اور اللہ کا حکم غالب ہوا اور ایسا ہونا ان کے لیے خوشگوار نہ تھا۔
ف 6 اس آیت میں ان کے خبث باطن اور مزید مکاریوں کا پر دہ چاک کیا گیا ہے یعنی آپ (ﷺ) کے خلاف مکرو فریب کرنا ان کی پرانی عادت ہے۔ پہلے بھی مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تد بیر کرتے رہے جیساکہ عبد اللہ بن ابی منافق نے غزوہ احد کے دن کیا کہ عین میدان جنگ سے اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر لوٹ آیا ۔اسی طرح جنگ تبوک سے واپسی پر دس منا فق آدمی ثنیۃ الوداع پر آنحضرت (ﷺ) کو قتل کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے تھے۔ ( کبیر) ف 7 یعنی تمہیں ناکام کرنے کے لیے انہوں نے متعدد مرتبہ کتنی ہی تد بیر سوچیں اور روکیں اور مکر و فریب کرنے کے لیے اپنی انتہائی کو ششیں صرف کیں۔ ( کبیر) ف 8 یعنی ان کے دلوں میں آپ (ﷺ) کی کامیابی اور اسلام کی ترقی برابر کھلتی رہی۔