عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
(اے پیغمبر) اللہ تجھے بخشے ! تو نے ایسا کیوں کیا کہ (ان کی منافقانہ عذر دارویوں پر) انہیں (پیچھے رہ جانے کی) رخصت دے دی؟ اس وقت تک رخصت نہ دی ہوتی کہ تجھ پر کھل جاتا کون سچے ہیں اور تو معلوم کرلیتا کون جھوٹے ہیں؟
ف 4 ہو ایہ کہ جب نبی (ﷺ) تبوک کی طرف روانہ ہونے لگے تو بعض منافقین نے بناوٹی حیلے بہانے پیش کر کے آپ (ﷺ) سے مدینہ ہی میں رہنے کی اجازت چاہی۔ آپ (ﷺ) نے انہیں سچا سمجھتے ہوئے مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی، اس اجازت دینے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا لیکن نہایت لطف و کرم کے اند از میں یعنی پہلے معافی کی اطلاع دی اور پھر قصور بیان فرمایا۔ اس میں پیچھے بیٹھے رہنے والوں کی مذمت بھی ہے۔ ( قر طبی۔ ابن کثیر) یہاں تو اجازت پر عتاب فرمایا ہے مگر سورۃ نو رکی آیتİ فَإِذَا ٱسۡتَـٔۡذَنُوكَ لِبَعۡضِ شَأۡنِهِمۡ فَأۡذَن لِّمَن شِئۡتَ مِنۡهُمۡ Ĭ ( کہ آپ (ﷺ) جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں) میں اجازت کی رخصت دے دی ہے۔ ( کبیر) بعض نے لکھا ہے کہ عَفَا ٱللَّهُ عَنكَ تعظیما برائے دعا استعمال ہوتا ہے اس سے قبل گناہ کا پایا جا نا ضروری نہیں ہے۔ ( کبیر)