إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے کی ہے۔ اللہ کی کتاب میں ایسا ہی لکھا گیا جس دن آسمانوں کو اور زمین کو اس نے پیدا کیا (یعنی جب سے اجرام سماویہ بنے ہیں خدا کا ٹھہرایا ہوا حساب یہی ہے) ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت کے مہینے ہوئے (یعنی رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم کہ امن کے مہینے سمجھے جاتے تھے اور لڑائی ممنوع تھی) دین کی سیدھی راہ یہ ہے۔ پس ان حرمت کے مہینوں میں (جنگ و خوں ریزی کر کے) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور چاہیے کہ تمام مشرکوں سے بلا استثنا جنگ کرو جس طرح وہ تم سے بلا استثنا جنگ کرتے ہیں اور (ساتھ ہی) یاد رکھو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (ہرحال میں) تقوی والے ہیں۔
ف 7 یہود ونصاری ٰ کی طرح مشرکین عرب بھی تغییر احکام کے لیے حیلہ سازی سے کام لیتے تھے مثلا دین ابراہیم ( علیہ السلام) میں یہ سنت چلی آرہی تھی کہ حرمت کے مہینوں میں لڑائی اور ظلم وزیادتی ممنوع تھی حتی ٰ کہ ان مہینوں میں کوئی شخص اپنے باپ کے قاتل سے بھی تعرض نہ کرتا تھا۔ مگر عرب کے بعض قبائل نے ان مہینوں میں لڑائی اور لوٹ ما کرلیتے تھے۔ قرآن نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں چار مہینے حرمت کے ہیں۔ سال میں بارہ مہینے ہیں اور ان میں چار مہینے حرمت کے ہیں۔ سا میں بارہ مہینے کی تصریح کی وجہ بیان کرتے ہوئے بعض نے لکھا ہے کہ عرب میں قمری مہینے رائج تھے جن کے حساب سے سال 355 دن کا ہوتا ہے، مگر شمسی حساب سے سال کے 365 دن بنتے ہیں، عرب لوگ قمری حساب کو شمسی حساب کر مطابق کرنے کے لیے کچھ عرصہ کے بعد سال قمری کو 13 مال کا قرار دے لیتے اور اسے کبیہ کہتے تاکہ کا روبار اور حج کے لیے منا سب مو سم نکل آئے۔ قرآن نے ان کی تردید کی۔ ( کبیر۔ ابن کثیر) ف 8 یعنی رجب، ذوالحجہ اور محرم، جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ان چا رہ مہینوں کی عرب بہت تعظیم کرتے تھے۔ ان میں ج لڑائی حرام سمجھتے۔ ( ابن کثیر) ف 9 یا یہ کہ صحیح حساب ہی یہ ہے یعنی ان چار مہینوں کا ادب کرنا اور سال میں بارہ مہینوں کا ہونا (رازی) ف 10 جنگ کر کے گناہ کر کے مطلب یہے کہ، ان مہینوں کی حر مت بر قرار رکھو اور ان میں لڑنے جھگڑنے، خونریزی اور گناہ کرنے سے پر ہیز کرو۔ ( کبیر) ف 11 یعنی ان سے خود لڑائی میں پہل نہ کرو لیکن اگر مشرکین لڑنے سے باز نہ آئیں تو سب مل کر ان سے لڑو جس طرح وہ ملکر تم سے لڑتے ہیں، بعض مفسرین (رح) نے فیھن کی ضمیر سے تمام مہینے مراد لیے ہیں اس لیے وہ حرمت کے مہینوں مراد لیے ہیں اس لیے وہ حرمت کے مہینوں میں بھی مقاتلہ جائز قرار دیتے ہیں اور لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود طائف کا محاصرہ ذولقعدہ میں کیا تھا مگر یہ رائے صحیح نہیں کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کا محاصرہ جیساکہ صحیحین میں ہے شوال میں شروع کیا اور ذوالقعدہ تک جاری رہا اور یہ جائز ہے۔ ( فتح القدیر)