قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر (سچا) ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے (ان کی کتاب میں) حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ سچے دین ہی پر عمل پیرا ہیں تو (مسلمانو) ان سے (بھی) جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور حالت ایسی ہوجائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو۔
ف 5 مشرکین عرب سے مقاتلہ اور جہاد کا حکم دینے کے بعد اب اہل کتاب سے جہاد کا حکم دیا کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اہل کتاب گو اللہ و آخرت پر ایمان کا دعویٰ کرتے تھے لیکن حقیقت میں اعتقادی اور عملی اعتبار سے ان کی حالت کھلے کھلے کافروں اور مشرکوں کی سی تھی۔ اگر واقعی ان کا اللہ پر صحیح ایمان ہوتا تو عیسائی عیسیٰ( علیہ السلام) کو اور یہود عزیز ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار نہ دیتے۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ان کا ایمان اور عدم ایمان برابر تھا ۔ ف 6 یعنی نہ وہ اس شریعت کو مانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعہ مقرر فرمائی ہے اور نہ دین حق کے تابع ہوتے ہیں۔ ف 7 یہ پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب سے لڑنے کا حکم دیا، چنانچہ اس حکم کے مطابق آنحضرت (ﷺ) نے شام کے نصاریٰ سے لڑنے کے لیے غزوہ تبوک کی تیاری کی اور مسلمانوں کو تیار رہنے کی ہدایت فرمائی۔ یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کا مقصد ان کو تلوار کے زور سے اسلام میں داخل کرنا نہیں ہے بلکہ وہ اگر اطاعت قبول کرلیں اور جزیہ ادا کرتے ر ہیں تو اس کے عوض اسلامی حکومت ان کے جان و مال کی حفاظت کی زمہ دارہوگی۔، اہل کتاب اور مجوس کے علاوہ دسرے غیر مسلموں سے جزیہ کے قبول کرنے یا نہ کرنے میں علما کا اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ (رح) کے نزدیک تمام غیر عرب کافروں اور مشر کوں سے جزیہ لیا جاسکتا ہے (وحیدی)