سورة التوبہ - آیت 28

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمانو ! حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مشرک نجس ہیں (یعنی شرک نے ان کے دلوں کی پاکی سلب کرلی ہے) پس چاہیے کہ اب اس برس کے بعد سے (٩ ہجری کے بعد سے) مسجد حرام کے نزدیک نہ آئیں اور اگر تم کو (ان کی آمد و رفت کے بند ہوجانے سے) فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو (کہ وہ ہر طرح کی ضروری چیزیں ہیں باہر سے لاتے اور تجارت کرتے ہیں) تو گھبراؤ نہیں، اللہ چاہے گا تو عنقریب تمہیں اپنے فضل سے تونگر کردے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1 گندے ہونے یہ سے یه مراد نہیں ہے کہ ان کے بد ن گندے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ عقائد اعمال اور اخلاق کے اعتبار سے گندے ہیں۔ اکثر علمائے سلف (رح) نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ ف 2 یعنی آئندہ سے حدود حرم میں بھی ان کا داخلہ سرے سے بند ہے۔ اس سے صرف ذمی اور غلام مستثنیٰ ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا اس سال کے بعد ذمی اور خدام کے سوا کوئی مشرک حرم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس بنا پر 9 ھ کو حج کے موقع پر سورۃ تو بہ کے کی ابتدائی آیات کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا(وَلَا يَحُجَّنَّ ‌بَعْدَ ‌الْعَامِ ‌مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ)، کہ آئندہ کوئی مشرک حج میں شریک نہیں ہو سکے گا اور نہ کوئی ننگاہو کر طواف ہی کرسکے گا۔ ۔۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اس کے بعد آنحضرت نے مشرکین اور یہود ونصاری کو جزیرہ عرب سے نکال دینے کا حکم دے دیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت (ﷺ) کی آخری وصیت کے مطابق حضرت عمر (رض) نے ان کو جزیرہ عرب سے خارج کیا۔ ( ابن کثیر، قرطبی) مسجد حرام میں تو مشرک داخل نہیں ہوسکتا۔ مگر دوسری مساجد میں کسی ضرورت کے مطابق مشرک داخل ہوسکتا هے، جیسا کہ نبی (ﷺ) نے بعض مشرکوں کو اپنی مسجد میں آنے كی اجازت دی تھی اور ثمامہ کو مسجد کےستون سے باند ھنے کا واقعہ تو مشہور ہی ہے۔ ( از وحیدی) ف 3 برات کے اعلان سے بعض لوگوں کے دلوں میں اندیشہ پیدا ہوا کہ مشرکین جو سامان تجارت وغیره لایا كرتے تھےوہ اب بند ہو جائے گا اور تجارت کو بہت نقصان پہنچے گا۔اسی اندیشہ کو رفع کرنے اور مسلمانوں کو تسلّی دینے کے لیے یہ آیت نازل ہوئ(کبیر) مطلب یہ ہے کہ تجارت اور کاروبار کی بندش وغیرہ کا اندیشہ نہ کرو۔ ف 4 آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ اسباب روزق کے دروازے کھول دیگا چنانچہ ایک تو جہاد کی و جہ سے غنیمت اور جزیہ کا بہت سا مال مسلمانوں کو حاصل ہوا تو وہ مالدار ہوگئے اور پھر تمام غریب مسلمان ہوگئے اس لیے حج میں آنے والوں کی کمی بھی نہ ہوئی ( وحید)