أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(مسلمانو) کیا تم ایسے لوگوں سے جنگ نہیں کرتے جنہوں نے اپنے عہد و پیمان کی قسمیں توڑ ڈالیں، جنہوں نے اللہ کے رسول کو اس کے وطن سے نکال باہر کرنے کے منصوبے کیے اور پھر تمہاری برخلاف لڑائی میں پہلی بھی انہی کی طرف سے ہوئی؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ (اگر ڈرتے ہو تو تم مومن نہیں کیونکہ) اگر مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ سزا وار ہے کہ اس کا ڈر تمہارے دلوں میں بسا ہوا۔
ف 4 اوپر کی آیت میں ائمہ کفر کے ساتھ مقاتلہ کا حکم تھا۔ اب اس آیت میں اس مقاتلہ کے وجوہ واسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین اسباب بیان فرمائے ہیں۔ نقض عہد کہ صلح حدیبہ ہوجا نے کے بعد بھی وہ بنو خزاعہ کے خلاف ( جو مسلمانوں کے حلیف تھے) بنو بکر کی پیٹھ ٹھو نکتے اور اسلحہ وغیرہ سے ان کی مدد کرتے رہے حلا نکہ ان کا ایسا کرنا صلح کے معاہدہ کی صریح خلاف ورزی تھی اور جب آنحضرت (ﷺ) مکہ میں تھے تو ملک سے نکال دینے کے لیے آپ (ﷺ) کے خلاف منصوبے سوچتے رہے جیسا کہ سورۃ انفال( آیت 30) میں گزر چکا ہے اور پھر بدر کے موقع پر جب ان کا تجارتی قافلہ بچ گیا تھا تو انہیں واپس چلاجانا چاہیے تھا لیکن یہ نہیں گئے اور انہوں نے خواہ مخواہ جنگ چھیڑ ی۔ ف 5 کیونکہ نفع ونقصان اس کے ہاتھ میں ہے اور جب وہ لڑنے کا حکم دے رہا ہے تو تمہیں ضرور لڑنا چاہیے ( وحیدی )