كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ
ان مشرکوں کا عہد کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر آج تم پر غلبہ پاجائیں تو نہ تو تمہارے لیے قرابت کا پاس کریں نہ کسی عہد و پیمان کا، وہ اپنی باتوں سے تمہیں راضی کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے دلوں کا فیصلہ اس کے خلاف ہے اور ان میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں۔ (یعنی راست بازی کے تمام طریقوں اور پابندیوں سے باہر ہوچکے ہیں)
ف 8 مشرکین سے برات کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے معاہدہ کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ لوگ زبان سے دوستی اور وفاداری کی میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں اور دل میں یہ ہے کہ اگر کبھی موقع مل جائے تو معاہدہ کو پس پشت ڈال کر ان مسلمانوں کو کچا چبا ڈالیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اَلاِلُ کے معنی قرابت اور ذمہ کے معنی عہد کے ہیں۔ ( ابن کثیر )