بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ
(مسلمانوں) جن مشرکوں کے ساتھ تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لیے اعلان ہے۔
ف 3 یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی چونکہ سورۃ توبہ اور سورۃ انفال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اس لیے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت کے حکم میں رکھا گیا ہے اور ان دو نوں کے درمیان بسم اللہ نہیں لکھتی گئی اوریہ سبع طوال میں ساتویں سورۃ ہے۔ اس کے متعدد نام ہیں جن میں سے مشہور دو ہیں ایک ’’التو بہ‘‘ اور دوسرا’’براۃ‘‘ تو بہ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایما ن کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔ اور برا ۃ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے برات کا اعلان کیا گیا ہے نیز اس کو سورۃ العذاب، سورۃ الفا ضحہ اور الحافرۃ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سورۃ کے آغاز میں’’ بسم اللہ الرحمن الر حیم‘‘، نہیں لکھی جاتی، اس کے مفسرین (رح) نے متعدد دو جوہ بیان کئے ہیں مگر سب سے معقول اور سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی (ﷺ) نے اس کے شروح میں’’ بسم اللہ‘‘ نہیں لکھوائی اس لئے صحابہ (رض) کرام نے نہیں لکھی، صحیح روایا ت میں ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو نبی (ﷺ) نے حضرت علی (رض) کو بھیجا جنہوں نے مکہ معظمہ پہنچ کر حج کے موقعہ پر مشرکین کویہ سورۃ سنائی اور اس کے ساتھ چارچیزوں کا اعلان کیا۔ (1) جنت میں کوئی غیر مومن داخل نہ ہوگا۔ (2) کوئی شخص ننگا ہو کر خانہ کعبہ کا طواف نہ کرے۔ (3) اس سال کے بعد کوئی مشر ک حج کے لیے نہ آئے اور (4) جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے رسول (ﷺ) کا معاہدہ موقت ہے اور انہوں نے اس کی خلاف ورزی نہیں کی ان کے ساتھ مدت معاہدہ تک وفا کی جائیگی اور جن سے معاہدہ نہیں ہوا یا جنہوں نے خلاف ورزی کی ہے انہیں چار ماہ کی مہلت ہے۔ ( ابن کثیر، کبیر) ف 4 یعنی اب معاہدہ ختم ہو اور دوستی کے تعلقات کٹ گئے۔ ( وحیدی )