وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَٰئِكَ مِنكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اور جو لوگ بعد کو ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی میں داخل ہیں۔ (انہیں اپنے سے الگ نہ سمجھو) اور (باقی رہے) قرابت دار تو وہ اللہ کے حکم میں ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حقدار ہیں (پس باہمی بھائی چارگی میں ان کے حقوق فراموش نہ کردیے جائیں) بلا شبہ اللہ ہر بات کا علم رکھتا ہے۔
ف 11 یعنی جنگ بدر کے بعد اس وقت جب اسلام ایک طاقت بن گیا یا صلح حدیبیہ کے بعد ہجرت کی۔ بہر حال اس سے ہجرت اولی ٰکے بعد کے مہاجرین (رض) مراد ہیں جن کا ذکرİ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحۡسَٰنٖ Ĭ ( تو بہ : 100) میں مذکور ہے وھذاھوالا صح۔ ( روح) آنحضرت (ﷺ) کے زمانہ میں جو مومن تھے یہ ان کی چوتھی قسم ہے۔ اول مہاجرین (رض) اولین دوم انصار (رض) ، سوم وہ مسلمان جو دارالکفر میں رہے اور انہوں نے ہجرت نہیں کی چہارم جنہوں نے ہجرت اولی کے بعد ہجرت کرلی اور پھر جہاد میں مسلمانوں کے برابر شریک رہے، ( از کبیر) ف 12 یعنی مہاجرین او لین اور انصار کے ساتھی شمار ہوں گے، دنیا میں یا آخرت میں جیساکہ متفق علیہ بلکہ متواتر حدیث میں ہے۔( ا الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ) کہ قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ اٹھے گا جس سے محبت اور دوستی رہی ہے۔ ( ابن کثیر ) ف 1 یعنی اب آئندہ سے میراث دینی بھائی چارے کی بنا پر نهیں بلکہ رشتہ داری کی بنا پر تقسیم ہوگی، اس سے وہ آیت منسوخ ہوگئی جس میں مہاجرین انصار کو ایک دوسرے کا وارث ہونا قرار دیا گیا تھا۔ (ابن کثیر) ف 2 وہی جانتا ہے کہ کس کا حق مقدم اور کس کا حق مؤخر ہے۔ لہذا اس کے تمام احکام سراسر علم و حکمت پر مبنی ہیں۔