سورة الانفال - آیت 58

وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر ایک گروہ (ابھی میدان جنگ میں تو دشمنوں کے ساتھ نکلا ہے لیکن اس) سے تمہیں دغا کا اندیشہ ہے تو چاہیے ان کا عہد انہی پر الٹا دو۔ (یعنی عہد فسخ کردو) اس طرح کہ دونوں جانب یکساں حالت میں ہوجائیں (یعنی ایسا نہ کیا جائے کہ اچانک شکست عہد کی انہیں خبر دی جائے بلکہ پہلے سے جتا دینا چاہیے، تاکہ دونوں فریقوں کو یکساں طور پر تیاری کی مہلت مل جائے) یاد رکھو اللہ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 مطلب یہ ہے کہ ان پر حملہ کرنا چاہو تو انہیں پہلے سے مطلع کردو کہ اب تمہارے اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے کیونکہ ہمیں اند یشہ ہے کہ تم معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والے ہو لیکن اگر معاہدہ ختم کئے بغیر ان پر چڑھ دوڑ وگے تو یہ دغا معاہدہ کی خلاف ورزی ہوگی اور اللہ تعالیٰ دغا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ( وحیدی) چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلفا کی یہی سیرت رہی کہ نقص عہد کی خطرہ کی صورت میں معاہدہ کے خاتمے کا اعلان فرمادیتے اور پھر حملہ آور ہوتے۔ ( ازابن کثیر، قر طبی) مگر جب کسی قوم نے بد عہد ی کردی ہو تو اس پر بے خبری میں حملہ کرنا بھی جائز ہے جیساکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کے ساتھ کیا ( کبیر )