الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ
(اے پیغمبر) جن لوگوں سے تم نے صلح کا) عہد و پیمان کیا تھا پھر انہوں نے اسے توڑا اور ایسا ہوا کہ ہر مرتبہ عہد کر کے توڑتے ہی رہے اور (بدعہدی کے وبال سے) ڈرتے نہیں۔
ف 6 اوپر کی آیت میں جب تمام کفار کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وہ ظالم ہیں تو اب یہاں بعض کفار کی خصوصی شرارتوں کا ذکر فرمایا۔ ( کبیر)وَهُمۡ لَا يَتَّقُونَ، کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہے کہ وہ بد عہدی کے انجام سے نہیں ڈرتے، ان سے مراد خاص طو پر مدینہ منورہ کے یہودی ہیں جن سے مدینہ منورہ پہنچ کر نبی (ﷺ) نے حسن جوار اور باہمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا لیکن اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت انہیں ایک نظر نہ بھائی تھی چنانچہ کبھی وہ اوس خزرج کے درمیان جاہلی عصبیت ابھار کر ان کو آپس میں لڑانے کی کو شش کرتے اور کبھی اسلام کے دشمنوں کی ہتھیاروں سے مدد کر کے معاہدہ كی باربار خلاف ورزی کرتے اور جب ان سے کہا جاتا تو کہہ دیتے کہ ہمیں معاهده یاد نہیں رہا تھا لیکن جوں ہی موقع ملتا پھر کوئی ایسی حرکت کر گزرتے جو معاہدہ کے خلاف ہوتی حتی کہ اس معاہدہ کے ہوتے ہوئے ان کا سردار کعب بن اشرف ( جو بدر میں قریش کی شکست سے انتہائی سیخ پا ہوا تھا) مکہ پہنچا اور وہاں مقتولین کفار بدر کے ہیجان انگیز مرثیے پڑھ کر قریش کے نو جوانوں کو مسلمانوں سے انتقام لینے کا جوش دلا تا رہا۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کو یہاںشَرَّ ٱلدَّوَآبِّ ( بد ترین جانور) فرمایا ہے۔ ( از ابن کثیر )