وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (مسلمانو ! اب تمہارے لیے صرف یہی چارہ کار رہ گیا ہے کہ) ان سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ ظلم و فساد باقی نہ رہے اور دین کا سارا معاملہ اللہ ہی کے لیے ہوجائے (یعنی دین کا معاملہ خدا اور انسان کا باہمی معاملہ ہوجائے، انسان کا طلم اس میں مداخلت نہ کرسکے) پھر اگر ایسا ہو کہ وہ (جنگ سے) باز آجائیں تو جو کچھ وہ کرتے ہیں خدا کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔
ف 8 یا مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنانا ختم ہوجائے۔ لفظ’’ فتنہ‘‘ کے لغوی معنی تپانے اور آزمانے کے ہیں اس لیے اس سے مراد شرک بھی ہوسکتا ہے اور مسلمانوں کو دین اسلام سے پھیر نے کے لیے ستانا بھی، مفسرین نے اس کے یہ دونوں مطلب بیان کئے ہیں۔ ( از ابن کثیر) ف 9 یعنی سب مذاہب پر اسلام کا غلبہ ہوجائے جیسا کہ نزول مسیح ( علیہ السلام) کے وقت ہوگا۔ اس کو نبی (ﷺ) نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا :مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کرتارہوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ کے قائل نہیں ہوجاتے چنانچہ جب وہ اس کے قائل ہوجا ئیں گے تو مجھ سے اپنے خون اور مال بچالیں الا یہ کہ ان پر کوئی اسلام کا قانونی حق عائد ہوتا ہو تو وہ ان سے وصول کیا جائے گا۔ اور ان کا حساب و کتاب ( یعنی جس حد تک دلوں کی حالت کا تعلق ہے) اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔ (بخاری ومسلم) ف 10 جیسے کام کریں گے ویسا ہی بد لہ ان کو دیا جائے گا ( از وحیدی )