سورة الانفال - آیت 33

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اللہ ایسا کرنے والا نہ تھا کہ تو ان کے درمیان موجود ہو اور پھر انہیں عذاب میں ڈالے حالانکہ وہ معافی مانگ رہے ہوں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6 یعنی جب تک آپ (ﷺ) ان میں موجود تھے اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیجنے والا نہیں تھا کیونکہ اس کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک اس کا رسول ( علیہ السلام) ان میں موجود رہتا ہے۔ چنانچہ حضرت نوح ( علیہ السلام) ہود، صالح اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ ( ابن کثیر) ف 7 یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنے گنا ہوں پر نادم ہو کر استغفار کرتی رہتی ہے وہ اسے ہلاک نہیں کرتا نبی (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ گنہگاروں کو دو چیز پناہ ہیں ایک میرا وجود اور دوسرے استغفار، ( مو ضح) منقول ہے کہ مشرکین طواف کے وقت غفرانك غفرانک کہا کرتے تھے یا مقصد یہ ہے کہ ان میں استغفار کرنے والے موجود ہیں یعنی مسلمان اور بعض نے یہ تاویل بھی کی ہے کہ انکے اندر اللہ تعالیٰ کے علم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آئندہ چل کر مسلمان ہو نگے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرینگے اس لیے ان پر عذاب استیصال نہیں آسکتا جیساکہ انہوں نے دعا کی تھی۔ ( ابن کثیر، کبیر )