فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
پھر کیا تم نے انہیں (جنگ میں) قتل کیا؟ نہیں خدا نے کیا (یعنی محض اس کی تائید سے ایسا ہو) اور (اے پیغمبر) جب تم نے (میدان جنگ میں مٹھی بھر کر خاک) پھینکی تو حقیقت یہ ہے کہ تم نے نہیں پھینکی تھی خدا نے پھینکی تھی، اور یہ اس لیے ہوا تھا تاکہ اس کے ذریعہ ایمان والوں کو ایک بہتر آزمائش میں ڈال کر آزمائے۔ بلا شبہ اللہ سننے والا، علم رکھنے والا ہے۔
ف 4 ورنہ خود مسلمانوں کی نہ تعداد زیادہ تھی، اور نہ ان کے پاس اتنا سامان تھا کہ وه کافروں کے ہر طرح کے مسلح اور عظیم لشکر کو شکست دے سکتے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ اس لیے فرمایا کہ مسلمان یہ سمجھیں کہ فتح ہماری قوت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہےلہذا ان کو چاہیے کہ کسی بات میں اپنا دخل نہ دیا کریں ( از موضح) ف 5 یہ اشارہ ہے اس وقعہ کی طرف كه بد ر کے روز جب معرکہ قتال گرم تھا تو نبی (ﷺ) نے مٹھی بھر سنگ ریزے ہاتھ میں لےکر ’’ شَاهَتِ الْوُجُوهُ ‘‘کہتے ہوئے کفار کی طرف پھنکنے جو ان میں ہر ایک كو لگے اور اس کی آنکھوں اور نتھنوں میں داخل ہوگئے، اکثر مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں رَمَىٰ سے مراد یہی نبی (ﷺ) کا مٹھی بھر کنکر یاں پھنکنا ہے۔ ( ابن کثیر) ف 6 باوجود یکہ ان کا سامان اور لشکر کافروں کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہ رکھتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح دی تاکہ وہ اس کی نعمت کو پہچانیں اور اس کا شكر بجا لائیں۔ ( کذافی ابن جریر )